بابائے سلاطین - امیر جلال الدین قاراتائےؒ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبدالرحمٰن
اناطولیہ کی فتح کے بعد، سلجوقی سلاطین نے اسے اسلامی ریاست کی شکل دیتے ہوئے اناطولیہ کے شہروں کو مساجد، مدارس، کارواں سراؤں، ہسپتالوں، عوامی بیت الخلاء، اور دیگر شاندار تعمیرات سے آراستہ کرنا شروع کر دیا۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد، "دیارِ روم" ایک "دارالاسلام" کی شکل اختیار کر چکا تھا۔
13 ویں صدی عیسوی تک، اناطولیہ دینی و عصری علوم، اسلامی تہذیب اور ثقافت کا ایک اہم مرکز بن چکا تھا۔
اس دوران بہت سے مفکرین، سیاسی مدبرین، شیوخ، صوفیاء کرام اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کی مشہور شخصیات نے جنم لیا۔
امیر جلال الدین قاراتائے کا شمار بھی سلاجقۂ روم کے چند انتہائی قابل سیاسی مدبرین، منتظمین اور امرائے سلطنت میں ہوتا ہے۔ انہوں نے تقریباً چالیس برس تک سلجوقی سلطنت کے مختلف اداروں میں اپنی اعلیٰ خدمات سرانجام دیں۔
سلطان علاء الدین کیقباد کے دورِ حکومت میں سلطانی امور میں معاونت کے لئے امیر قاراتائےؒ کی تقرری شاہی محل میں کر دی گئی، جہاں انہوں نے 17 برس تک سلطان کی خدمت کی۔
سلطان علاء الدین کی وفات کے بعد آپ نے سلطان غیاث الدین کیخسرو ثانی، سلطان عزالدین کیقاؤس ثانی اور سلطان رکن الدین قلیج ارسلان ثانی کے ادوارِ حکومت میں نائبِ سلطنت کے فرائض ادا کئے۔
امیر قاراتائے بیک وقت تین سلاطین کے اتابک (شاہی استاد، اتالیق) بھی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں "بابائے سلاطین" بھی کہا جاتا ہے۔
1239ء میں سلطان غیاث الدین کے دور میں ایک معروف مبلغ بابا اسحاق کی بغاوت کے نتیجے میں ملک خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ بغاوت فرو کرنے کے بعد سینکڑوں ترکوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ امیر قاراتائے نے سلطنت میں اندرونی امن کے قیام کی خاطر ان ترکوں کے لئے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے انہیں قید سے رہا کر دیا۔
اس حسنِ سلوک کا خاطرخواہ نتیجہ نکلا اورحالات میں نمایاں تبدیلی آئی، جبکہ عوام کے دلوں میں امیر قاراتائے کے لئے محبت بڑھ گئی۔
لیکن ایک اور بڑا خطرہ منگولوں کی صورت میں سر پر منڈلا رہا تھا۔
سلجوقی سلطنت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزرتے ہوئے زوال کی جانب بڑھ رہی تھی۔
تاتاریوں کے ہاتھوں پے در پے شکستیں کھانے کے بعد سلطان غیاث الدین انطالیہ بھاگ گیا، جبکہ سلطنت کی ذمہ داری امیر قاراتائے پر آن پڑی۔ انہوں نے حالات کا مردانہ وار سامنا کیا اور کسی نہ کسی طرح تاتاریوں سے قونیہ کو بچائے رکھا۔
امیر قاراتائےؒ نے اپنی وفات سے قبل تقریباً پانچ سال تک مذاکرات کے ذریعے منگول حملہ آوروں کو آگے بڑھنے سے روکے رکھا۔ اور یوں مغربی اناطولیہ میں موجود قائی قبیلے کے سردار ارطغرل بن سلیمان شاہ کو اپنے قدم جمانے میں مدد ملی۔ اور بعد ازاں، ان کے بیتے عثمان غازی نے چھ صدیوں تک تین براعظموں پر اپنی فتوحات کے پرچم لہرانے والی عظیم الشان سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی۔
امیر قاراتائےؒ محض سیاسی مدبر ہی نہیں بلکہ دینی و عصری علوم و فنون سے بھی حد درجہ دلچسپی رکھتے تھے۔
انہوں نے حاجی نصیر الدین محمود (اخی ایوران) کو عربی کتب کا فارسی زبان میں ترجمہ کرنے کی ذمہ داری سونپی اور انطالیہ شہر میں ایک خانقاہ تعمیر کروائی۔
امیر قاراتائے نے تین سلجوقی سلاطین کی خواہش پر1251 عیسوی میں ایک عظیم الشان مدرسہ قائم کیا۔ جس کا نام "مدرسہ قاراتائے" رکھا گیا۔ مدرسے کی تکمیل پر ایک بہت بڑی اور پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں مولانا جلال الدین رومیؒ نے بھی شرکت کی۔
(یہاں ارطغرل کے دیوانے قارئین کے لئے یہ بات یقیناً دلچسپی سے خالی نہیں ہو گی کہ مولانا رومیؒ نے اپنے بچپن میں کچھ عرصہ شیخ ابن العربیؒ کی صحبت پائی اور ان سے فیض حاصل کیا تھا۔)
امیر جلال الدینؒ کا قائم کردہ "مدرسہ قاراتائے" تقریباً 663 برس تک اپنی تمام تر تعلیمی و تربیتی سرگرمیوں کے ساتھ جاری رہا۔ اس مدرسے کے اولین فارغ التحصیل طلباء نے سلطنتِ عثمانیہ کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا، جبکہ عثمانی دور میں یہاں کے تربیت یافتہ طلباء نے سلطنت کے لئے اپنی بھر پور خدمات سرانجام دیں۔
جنگ عظیم اول کے دوران اس مدرسے کے طلباء نے گیلی پولی کی جنگ میں عملی طور پر حصہ لیا۔ جس میں ترکی کو ایک تاریخی کامیابی حاصل ہوئی۔
جنگ کے بعد مدرسے کو بند کر دیا گیا۔ تآنکہ سنہ 2009ء میں قونیہ چیمبر آف کامرس نے اسے ایک یونیورسٹی کا روپ دیتے ہوئے اس تعلیمی سلسلے کو از سرِ نو جاری کر دیا۔
امیر جلال الدین قاراتائے کا انتقال28 رمضان 1254ء کو قیصری شہر کے قریب ہوا۔ ان کی میت کو قونیہ لے جایا گیا، جہاں انہیں مدرسہ قاراتائے میں دفنایا گیا۔
امیر جلال الدین تو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ لیکن ان کا لگایا ہوا پودا، ایک تناور درخت کی شکل میں ساڑھے چھ سو سال تک عالمِ اسلام کو پھل اور سایہ فراہم کرتا رہا۔ اور آج بھی صدقہ جاریہ کی صورت، قائم اور آباد ہے۔