top of page

3 مارچ 1924 یوم سقوطِ خلافتِ عثمانیہ

Updated: May 4, 2019

خلافتِ راشدہ، خلافت امویّہ اور خلافتِ عباسیہ کے بعداسلامی تاریخ کی چوتھی بڑی خلافت عثمانیہ تھی،جوتقریبا۲کروڑ مربع کلومیٹر پر محیط تھی،اس کا دورانیہ تقریباً 642 سال از 1282ء تا 1924ءرہا اور 37 حکمران مسند آرائے خلافت ہوئے۔

ترکمان سردار عثمان خان نے عالم اسلام کی سب سے بڑی سلطنت کی بنیاد ڈالی جب کہ عثمانی سلطنت کے تیسرے سلطان‘ مراد اوّل نے یورپ میں فتوحات کے جھنڈے گاڑے،اورساتویں عثمانی سلطان، محمد فاتح نے قسطنطنیہ (شہرِ قیصر) فتح کر کے گیارہ سو سال سے قائم بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کر کے حدیثِ رسول اللہﷺ میں فتح قسطنطنیہ کے حوالے سے وارد ہونے والی بشارت کا مصداق بنے ۔

جب کہ 933ھجری بمطابق 1517 عیسوی میں 9ویں عثمانی حکمران سلطان سلیم اول کے ہاتھ پرآخری عباسی خلیفہ المتوکل علی اللہ ثالث نے بیعت کرکے خلیفہ سلیم کو منصب و اعزاز خلافت کی سپردگی کے ساتھ وہ تبرکاتِ نبویہ بھی بطورسند و یادگار دے دیے تھے جو کہ خلفائے بنو عباس کے پاس نسل در نسل محفوظ چلے آرہے تھے۔حیران کن حقیقت یہ ہے کہ ، خلافت عثمانیہ کی مضبوطی اور مرکزیت کی وجہ سے مسلم ممالک کے حکمران ،خلیفہ وقت سے فرمانروائی کی سند حاصل کرنااعزاز سمجھتے تھے جب ک ایران کی صفوی حکومت نے اس موقع پر بھی افتراق وانتشار کا راستہ اپنائے رکھا اور خلافت عثمانیہ کا حصہ بننے سے پہلو تہی کرتا رہا۔




شمسی اعتبار سے چار سو چھ سال تک اور قمری حساب سے چار سو انیس سال تک یہ خلافت عثمانیوں کے پاس رہی، اس دورانیہ میں ۱۹ خلفاء مسندنشین خلافت رہے۔عروج وزوال کے نشیب وفراز کے کھٹن سفر کے بعد یکم نومبر 1922ء کومصطفی کمال پاشا نے مغربی طاقتوں اور ’’فری میسن لابی ‘‘ کی ایما پر ترکی کی گرینڈ نیشنل اسمبلی کے ذریعے سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کی قرارداد منظور کرکے خلیفہ اسلام، عثمانی سلطان محمد وحید الدین ششم کی اٹلی کی طرف ملک بدری کے احکامات جاری کرکےسلطنت خاتمہ کرنے کے بعد سلطان وحید الدین ششم کے قریبی رشتہ دار عبدالمجید آفندی کو آخری وعلامتی عثمانی خلیفہ بنایا ،مگر 328رجب 1342 بمطابق مارچ 1924ء کو ترکی کی قومی اسمبلی نے ایک مرتبہ پھراسلام دشمنی اور مغرب پروروں کا ثبوت دیتے ہوئے اتاترک کی قیادت میں اسلامی خلافت کے خاتمے کا قانون بھی منظور کرلیااور یوں دنیائے اسلام رحمت عظیمہ سے محروم ہوگئیاسلامی شریعت کو معطل کرنے کے علاوہ سرزمین خلافت کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر نے کے بعد ہر ایک کو اپنا آئین ، قانون، قومیت اور جھنڈا تھمانے کے ساتھ امت کا شیرازہ بکھیردیا گیا،اسلام کی عادلانہ نظام معیشت کو مغربی سرمایہ دارانہ نظام سے ،لادینیت کو جمہوریت کے نام سےفروغ دیا گیا جب کہ اسلامینظام تعلیم ،عربی زبان،شعائراسلام اور اسلامی تہذیب کو ترکی سے دیس نکالا دیا گیا،اور سقوط کا سب سے بڑا نقصان فلسطین میں صیہونی ریاست کے وجود کی صورت میں ظاھر ہوا۔

اگر ہم پرامن خلافت عثمانیہ کے سقوط کے اسباب پر غور کریں تو ہم بخوبی جان سکتے ہیں کہ دشمنان اسلام سے قربتوں،کمال اتاترک جیسے غداروں اور دہریوں کا اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچنا ،باہمی اختلافات ،غیرملکی قرضوں کے غیرمعمولی بوجھ ،مالی بدعنوانیوںاور بے اعتدالیوں کےرواج ،درباری غلام گردشوں اور سازشوں نے جہاں اندورنی طور پرنظم خلافت کو کھوکھلا کیاوہیں قوت ،ٹیکینالوجی ،تعلیم اور انتطامی امور کےجدیدتقاضوں سے غفلت بھی محرومی کاسبب بنی ،جب کہ لسانی،قومی اور گروہی تعصب نے امت کا شیرازہ بکھیرنے میں جلتی پر تیل کا کام دیا اور ہم امت واحدہ کی لڑی سے ٹوٹ کرمختلف خطوں کے ناموں سے بکھرگئے ،جو کیفیت ہنوز برقرار ہے۔

بشکریہ (تنویر اعوان)

4,268 views3 comments
bottom of page