top of page

ارطغرل اوربھینس کا ناچ

Updated: Jul 31, 2020

تحریر: احسان حقانی


شہرہ آفاق ترکی ڈرامہ سیریل ارتغرل دیکھتے وقت میں کئی بار سخت بوریت کا شکار ہوجاتاہوں۔ڈرامے میں پلاٹ، اداکاری اور پیشکاری سمیت کئی پیشہ ورانہ کمزوریاں بار بار سامنے آتی ہیں۔ کئی جگہوں پر جہاں عاجزی کا مظاہرہ کرنا ہوتاہے، وہاں پر بے جا تکبر کا اظہار ہوتاہے۔ پرائی سرزمین پر پھٹے پرانے خیموں میں رہنے والے قبائل کے بزرگ ایسا برتاؤ کرتے ہیں گویا کسی سلطنت کے شہنشاہ ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔



ان تمام فنی خامیوں کے باوجود اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ڈرامہ ارتغرل نے ڈراموں کی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش سنگ میل کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ نہ صرف ترکی بلکہ عالم عرب و عجم اور یورپ میں اس ڈرامے نے کروڑوں لوگوں کو نہ صرف مسحور کردیا ہے بلکہ کئی ممالک کے بادشاہوں کو اس ڈرامے میں اپنی بادشاہتوں کا اختتام نظر آتاہے۔عالم عرب میں ترک ڈراموں کی مقبولیت کے ساتھ ہی ترک مصنوعات کی کھپت میں تیس فیصد اضافہ حیرت انگیز ہے۔ ایک ڈرامہ کس طرح اتنے بڑے سیاسی اور تجارتی مقاصد حاصل کرنے میں کامیابی سے آگے بڑھ رہاہے۔اس ڈرامے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے فنون لطیفہ کے بارے میں بڑ بڑ کرنے والوں کو ممیانے پر مجبور کردیا ہے۔


برصغیر اور پاکستان کے بڑے بڑے ڈرامہ باز اور فلم سازجو ہمیں سکھاتے تھے کہ لوگ فلم اور ڈرامہ میں کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔اب منہ چھپائے پھر رہے ہیں۔ بڑے بڑے فلم سازوں کا دعویٰ تھا کہ جب تک فلم میں بھینس کا ناچ شامل نہ کیا جائے، فلم چلتی نہیں۔ اس لئے ہم کوئی نہ کوئی بھینس پکڑ کر کھیتوں میں لے جاتے ہیں اور وہاں اس کو نچا کر اپنے ناظرین کو محظوظ کرتے ہیں۔ وہ ڈرامہ باز، جو ہمیں کہتے تھے کہ جب تک ساس اور بہو کا، نکاح اور طلاق کا، ناجائز تعلقات کا ذکر نہ ہو، ڈرامہ بن ہی نہیں سکتا۔ اب ان سے کچھ بن نہیں پڑرہا، کہ ارتغرل کی بے مثال کامیابی کی کیا توجیہ پیش کریں۔



ہماری فلم انڈسٹری اور فنون لطیفہ کے ذہنی معذوروں کا ذہن اس سے آگے بڑھ ہی نہیں سکتا تھا کہ ہیرو کی زندگی کا مقصد ہیروئن کو حاصل کرنا ہوتاہے۔ لڑکے کو لڑکی پسند آتی ہے۔ وہ شادی کی کوشش کرتا ہے۔ کچھ مشکلات سامنے آتی ہیں اور آخر میں شادی ہوجاتی ہے۔ارتغرل نے ایسے ذہنی معذروں کو بے نقاب کردیا ہے اور تخلیق کاروں کو کام کی نئی وسعتوں سے آشنا کردیا ہے۔


کسی زمانے میں جب پاکستان میں ڈنڈے کے زور پر دوپٹہ نافذ کیا گیا تھا اور ڈراموں میں پرائی ثقافت سے دور رہنے کی کوشش کی جاتی تھی، تو وہی دورپاکستانی ڈرامے کا سنہری دور تھا۔بھارت، نیپال اور بنگلہ دیش میں لوگ بازار بند کرکے پاکستانی ڈرامہ دیکھنے کے لئے وقت نکالتے تھے۔ پھر جمہوریت اور آزادی آئی تو ہم نے غلامی اور نقالی کا انتخاب کرلیا، جس کے نتائج ایک تباہ حال فلم انڈسٹری کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔



صرف ترکی ہی نہیں، ایران اور مصر کے فلمساز وں نے اس میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں، پاکستانی شوبز کے کرتے دھرتے ان کے سامنے بونے بلکہ ذہنی مریض نظر آتے ہیں۔عبدالستار ایدھی پر آج تک ہم نہ کوئی فلم بنا سکے، نہ ڈرامہ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی، رتھ فاؤ، عارفہ کریم اور ایسے کتنے ہی نام ہیں، جن کی کہانی کو اگر سادگی سے بھی فلمایا جائے تو شاہکار وجود میں آسکتے ہیں۔ لیکن ہمارے فلمسازوں اور ڈرامہ بازوں نے بھینس نچانے کو ہی کامیابی کا راز سمجھا ہے تو بتائیے، کامیابی کیسے حاصل ہوگی؟



8,106 views3 comments
bottom of page