سب سے پہلے میرا پاکستان
تحریر : ملک علی رضا
ہم امن کے ساتھی ہیں مگر کسی قسم کی جنگ میں ہم امریکہ کا ساتھ نہیں دے سکتے، ایسا کہنا تھا وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن کے دوران خطاب میں۔حالیہ خطے کی بدلتی صورتحال اور افغانستان سے امریکی اتحادی افواج کے انخلا کی وجہ سے اس وقت پاکستان پر سخت پریشر ہے کیونکہ امریکہ نے اپنی افغانستان میں ناکامی کے بعد پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین میں امریکی اتحادی فوجیوں کو جگہ فراہم کرے تا کہ وہ پاکستان میں رہ کر افغانستا ن کے علاقوں پر اپنی نظر رکھ سکے۔ مگر پاکستان نے عالمی دباو اور خطرات کو پس پُشت ڈال کر امریکہ کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ اب پاکستان کسی بھی دوسرے کی جنگ میں براہ راست شامل نہیں ہوگا جیسے پہلے پاکستان نے امریکہ کے کہنے پر سب کچھ کیا اور اس جنگ میں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان اُٹھانا پڑا ۔
اسی اثنا میں امریکہ نے افغانستان میں رہ کر پاکستان میں 430 کے قریب ڈرون اسٹرائیک کیے جس میں ہزاروں بے گناہ افراد کی جانیں گئیں اور بہت نقصان اُٹھانا پڑا ۔ عمران خان کی حکومت شروع ہوتے ہی وزیر اعظم کا خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ عمران خان یہودی ایجنٹ ہے مگر یہ کیسا ایجنٹ ہے کہ جس نے یہودیوں کے سامنے پاکستان نے عزت وقار کی خاطر گُھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا جیسا کہ گزشتہ ادوار میں کیا گیا ۔
پاکستان نے طالبان ، امریکی اتحادی فوجوں اور افغانستان حکومت میں امن کی خاطر ثالث کا کردار ادا کیا یہی وجہ ہے کہ اب کی بار امریکہ کو پاکستان کی منت سماجت کرنی پڑی کہ وہ افغانستان سے انخلا میں انکی مدد کرے اور طالبان کیساتھ امن کی فضا قائم کرنے میں مدد کرے اور پاکستان نے جہاں تک ممکن ہوا مدد کی تا کہ خطے میں امن قائم ہو سکے۔
دوسری جانب امریکہ ایک طرف پاکستان کے ثالثی کا کردار ادا کرنے کا کہہ رہا ہے اور دوسری جانب بھارت کو افغانستان میں کنٹرول دلوانے کے لیے جو اس سے بن پڑ رہا ہے وہ کر رہا ہے ۔ اسی وجہ سے 25 سال بعد ایسا موقع آیا ہے کہ بھارت کی افغان طالبان سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔
عمران خان نے کچھ دن پہلے ایک امریکی جریدے کو انٹرویو میں بھی امریکہ کو اپنی سرزمین دینے پر دو ٹوک جواب دیا تھا کہ پاکستان اب اپنی سرزمین کسی بھی قسم کی جنگ کے لیے استعمال ہونے نہیں دےگا۔اپوزیشن جماعتیں عمران خان پر تنقید کے نشتر چلاتے رہتے ہیں اور دنیا بھر کے ممالک اس وقت عمران خان کے کسی بھی بیان کو لیکر طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ اور انٹرنیشنل میڈیا تو عمران خان کے کسی بھی بیان کو جو امریکہ ، اسرائیل یا انکے اتحادیوں کے بارے میں بات ہوتی اس میں سے ہر منفی پوائنٹ کو اُٹھا کر دنیا کے سامنے اس طرح سے لاتے ہیں جیسے عمران کان نے انکے خلاف بات کر کے کوئی جُرم کر دیا ہو۔
یہ بات تو کنفر م ہو چکی ہے ایک تُرکی کے صدر رجب طیب ادرغان اور دوسرا اب عمران خان ایسا لیڈر ہے جس کی بات پوری دنیا میں گونجتی ہے۔ کشمیر کے معاملے پر بھی اقوام متحدہ سے لیکر او آئی سی جیسے فورمز یورپین پارلیمنٹ تک کشمیر کے حوالے سے بات کی گئی جو کہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کی ضمانت ہے۔
یہاں اگر ہم پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے کردار کی تعریف نہ کی جائے تو یہ سراسر زیادتی ہوگی یہاں تک کہ اس سب کے پیچھے جو اصل محنت ہے وہ پاکستان کے سکیورٹی اداروں کی محنت ہےجنہوں نے پاکستان کے وقار کی خاطر امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو بھی اب انکی اصل جگہ پر رکھ دیا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹینت جنرل فیض حمید کے مختلف ممالک کے دوروں اور خاص طور پر تُرکی ، قطر اور افغانستان کے دوروں کی خاصی اہمیت رہی۔ عمران خان کا بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس وقت پاکستانی کی سول اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہے۔ عمران خان کے ہر بیان کے بعد بھارت میں ایک آگ سی لگ جاتی ہےا ور اتنی تکلیف امریکہ کو نہیں ہوتی جتنی بھارت کو ہوتی ہے۔
عمران خان کے پارلیمنٹ میں دیے جانے والے بیان کو اپوزیشن کی جماعتو ں نے بھی سراہا جس کے بعد عوام کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ جو بات عرصہ دراز سے حکومتیں کرنے والوں کے کرنی چائیں تھیں اور پہلی بار بننے والا وزیر اعظم عمران خان کر رہا ہے۔ عمران خان نے پاکستان کے وقار اور عزت کی خاطر بیرونی دباو کو مسترد کر دیا ہےاور اب اس کے آفٹر شاکس پاکستان میں متعدد جگہوں سے آئیں گے کیونکہ اس بات کی تکلیف کارد عمل پاکستان میں آئے گا ۔
اب اس معاملے پر اپوزیشن جماعتوں اور تمام سیاسی جماعتوں کو عمران خان کا ساتھ دینا چائیے۔ آنے والے وقت میں پاکستان کے لیے مزید مشکلات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے تا کہ پاکستان اپنے موقعف سے پیچھے ہٹ جائے تو اس کے لیے عوام کو چائیے کہ وہ فیصلہ کریں کہ انہوں نے سیاسی قیادتوں کے لیے کام کرنا ہے یا پاکستان کی عزت و وقار کے لیے ؟۔ عمران خان نے کشمیر کے حوالے سے بھی پھر سے کہہ دیا کہ اگر بھارت اپنے فیصلوں سے پیچھے نہیں ہٹے گا تب تک بھارت کے ساتھ بات چیت نہیں ہوگی ۔
Opmerkingen