top of page

تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟

Updated: Jul 21, 2022

11 جولائی کو مغربی ملکوں کے سائنسدانوں نے خلا میں چھ ماہ قبل بھیجی جانے والی دنیا کی سب سے بڑی خلائی دوربین جیمز ویب ٹیلیسکوپ کی انسانی عقل کو خیرہ کر دینے والی تصاویر شائع کیں۔ جس میں ابتدا کی کائنات کی کہشائیں اور ستاروں کے جھرمٹ دکھائی دے رہے تھے۔



دوربین دراصل روشنی کو استعمال کرنے والا ایسا آلہ ہے جس سے دور کی چیزوں سے نکلنے والی روشنی کو مختلف عدسوں یا شیشیوں کی مدد سے ایک جگہ پر جمع کر کے کسی منظر کو باآسانی دیکھا جا سکتا ہے ۔ روشنی کو موڑنا، اسکا رخ تبدیل کرنا، مختلف میڈیم جیسے کہ ہوا، پانی یا گلاس میں سے گزار کر اسکی رفتار کو بدلنا(روشنی کر رفتار ہمیشہ ایک رہتی ہے۔ مختلف میڈیم میں البتہ اسکا ایٹموں سے ٹکراؤ اور بار بار بکھرنے کے باعث بظاہر اس میڈیم سے گزرتے اسکی رفتار کم ہو جاتی ہے)، وغیرہ یہ سب سائنس کی ایک فیلڈ کہلاتی ہے جسے Optics یا عربی میں علمِ بصریات کہا جاتا ہے۔


گو انسان برسوں سے روشنی کے مختلف مظاہرِ فطرت دیکھتا آیا یے مگر اسے باقاعدہ سمجھنا اور اس کے ذریعے آلات جیسے کہ ابتدائی شکل میں کیمرہ وغیرہ بنانا دسویں صدی عیسوی کے مسلمان ماہرِ فلکیات "أبو علي، الحسن بن الحسن بن الهيثم" یا "ابن الھیثم" کے سر جاتا ہے۔ بغداد میں اسلام کے سنہری دور کے اس سائنسدان نے یہ تھیوری واضح کی کہ ہمیں چیزیں دراصل کس طرح سے نظر آتی ہیں۔


قبلِ مسیح کے یونانی مفکر ٹالمی اور اییوکلڈ نے نظر کے متعلق سے نظریہ پیش کیا تھا کہ ہماری آنکھوں سے روشنی نکلتی ہے جسکی وجہ سے ہم چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ مگر "ابن الھیثم" نے اسے رد کیا۔ اسکے مطابق آنکھون سے نہیں بلکہ روشنی چیزوں سے نکلتی ہے ( دراصل چیزوں پر منحصر کچھ سے روشنی نکلتی اور کچھ سے منعکس ہوتی ہے)جو جب ہماری آنکھ پر پڑتی ہے تب ہی وہ شے ہمیں نظر آتی ہے۔ ٹالمی کے نظریے کی رد میں اسکی بنیادی دلیل یہ تھی کہ جب ہم سورج کو بلاواسطہ دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔لہذا آنکھوں سے اتنی روشنی کا نکلنا چہ معنی ؟ دوسری دلیل یہ تھی کہ آنکھیں جب کھلتی ہیں تو اتنے وسیع ماحول کو ہر طرف اتنی روشنی پھینک کر نہیں دیکھ سکتیں۔ اسکے علاوہ بھی اس نے کئی بنیادی دلائل دیے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ "ابن الھیثم" صحیح تھا۔ اسکی اس تھیوری کا ایک ثبوت آج جیمز ویب ٹیلیسکوپ میں صورت میں موجود یے جو ہم سے کئی ارب نوری سال دور کی روشنیوں کو جانچ کر ہمیں ابتدا کی کائنات کے منظر دکھا رہی ہے۔


ا"ابن الھیثم" کی کتاب: "کتابِ المناظر" میں اس نے روشنی کے مختلف مظاہر کو بیان کیا اور تجربات کے ذریعے عدسوں، شیشوں کی مدد سے یہ ثابت کیا کہ روشنی ہمشہ سیدھی لکیر میں سفر کرتی ہے۔ اس کتاب کو تیرویں صدی کے اوائل میں لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا اور یوں بصیرت کا سائنسی علم یورپ پہنچا۔ وہاں اسکی کتاب کو مختلف یورپین زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔

لہذا اگر یہ کہا جائے کہ "ابن الھیثم" نے جدید علمِ بصریات کی بنیاد ڈالی تو ہرگز مبالغہ نہ ہو گا۔ اس علم کے علاوہ "ابن الھیثم" نے دیگر سائنسی علوم جیسے کہ علمِ فلکیات، ریاضیات وغیرہ میں بھی کئی کتابیں لکھیں مگر ان میں سے بہت سا کام حوادثِ زمانہ کی نظر ہو گیا۔

آج اگر "ابن الھیثم" یہ سوچ کر ہڈ حراموں کیطرح بیٹھ جاتا کہ وہ سب جانتا ہے اور کچھ نیا کرنے یا سیکھنے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ ہر چیز پہلے سے معلوم ہے تو جیمز ویب ٹیلسکوپ تو ایجاد ہو جاتی کہ ذہنی ارتقاء میں آئیڈیاز نہیں رکتے مگر شاید آج نہ ہوتی کئی صدیاں بعد ہوتی۔


یہ بات دلچسپ ہے کہ کس قدر محدود وسائل میں دسویں صدی عیسوی میں "ابن الھیثم" نے سائنس کا علم حاصل کیا اور سائنسی تحقیق کی۔ آج ہم جس دور میں ہیں وہاں انٹرنیٹ پر تمام علوم تک ہمیں رسائی حاصل ہے۔ دنیا کی جدید سے جدید یونیورسٹیاں سائنس کا علم مفت میں بانٹ رہیں ہیں مگر ہم نے قسم کھائی ہے کہ "نہ کھیڈاں گے تے نہ کھیڈن دیاں گے"۔ویسے تو سائنس کسی خاص قوم کی میراث نہیں مگر صاحبو انگریزوں سے نہ سہی اپنے اسلاف سے ہی کوئی "مت" لے لو۔ کب تک شاندار ماضی پر بغلیں بجا بجا کر "بغلول" بنے رہنے کا ارادہ ہے؟

اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی

دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا !!

Related Posts

See All
bottom of page