top of page

"کسریٰ کا محل""

سلمان پاک" سے تقریباً ایک کلو میٹر کے فاصلے پر "کسریٰ کے وہ مشہور محلات" ہیں جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت دراڑیں پڑ گئی تھیں اور اس کے چودہ کنگرے گر گئے تھے۔۔۔۔ دیواریں ابھی تک صحیح و سلامت کھڑی ہیں اور ایک دیوار میں دراڑ بھی اسی طرح اب بھی موجود ہے جو تقریباً دیڑھ فٹ ہو گی۔ ہر دیوار تقریباً 30 فٹ چوڑی ہے , شنید ہے کہ اس پر گھوڑے آسانی کے ساتھ چلتے تھے۔ کم و بیش 130 فٹ کی بلندی پر ڈاٹ ہے اور 100فٹ پر کسریٰ کا تخت تھا جہاں وہ بیٹھتا تھا۔۔۔ اس کے دائیں بائیں اس کے محافظوں کے لئے روشندان نما دروازے ہیں، بائیں جانب باہر نکلیں تو اس کے ارد گرد کمروں کے کھنڈرات ہیں۔ یہ کمرے عہد رفتہ کی شکست و ریخت کا شکار ہو چکے ہیں مگر وہ دیواریں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے وقت پھٹ گئی تھیں ابھی تک موجود ہیں۔ یہ محل ایرانیوں نے بنوایا تھا اور مدائن ان کا دارالحکومت تھا۔ اس کی بلندی پختگی اور خوبصورتی اپنی مثال آپ ہے۔۔۔ یہ حیرت انگیز عمارت 90 سال کی طویل مدت میں مکمل ہوئی جبکہ اس پر سونے کا ملمع کیا گیا اور قیمتی جواہرات سے اسے پیراستہ کیا گیا تھا۔




یہی وہ محل تھا جہاں ایران کے شنہشاہ خسرو پرویز نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک چاک کر دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق جلد ہی اس کے بیٹے شیرو یہ نے اس کو قتل کر دیا اور حکومت پر قابض ہو گیا۔ اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں تیس ہزار مجاہدین کا لشکر ایران کو فتح کرنے کی غرض سے حملہ آور ہوا جبکہ شہنشاہ ایران کی فوج کی تعداد دو لاکھ تھی اور اس کی قیادت نامور جرنیل رستم کے سپرد تھی۔ قادسیہ کے مقام پر ایرانی فوج کو زبردست شکست ہوئی اور وہ مدائین میں جا کر پناہ گزیں ہو گئی۔ اسلامی فوج نے تعاقب کیا تو انہوں نے دریائے دجلہ کے تمام پل توڑ دئیے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے حکم سے مجاہدین نے گھوڑے دریا میں ڈال دئیے۔ اسی واقعہ کی طرف علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شکوہ میں یوں اشارہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔

""دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے

بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے""


لشکر اسلامی کو دریا نے راستہ دے دیا اور تمام لشکر بحفاظت دوسرے کنارے پر پہنچ گیا بلکہ مالک بن عامر کا پیالہ دریا میں گر گیا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو ان کا پیالہ پانی پر تیرتا ہوا کنارے آ لگا۔ یہ منظر دیکھ کر ایرانی گھبرا کر کہنے لگے کہ ’’دیواں آمد دیواں آمد‘‘ دیو آ گئے دیو آ گئے، چنانچہ وہ بھاگ گئے اور کسریٰ پر اسلامی پرچم لہلہانے لگا۔۔۔۔

"خدا نے امتحاں فرما لیا تھا اپنے بندوں کا

ہوا ثابت کہ دل مضبوط ہے ان حق پسندوں کا""



• کئی من وزنی سونے کا بنا عظیم الشان تاج!!!

ایوان کسریٰ سے مال غنیمت میں عجیب عجیب نوادرات مسلمانوں کے ملے۔۔۔۔ مثلاً ایک پردہ اتنا بیش قیمت تھا کہ اس سے سو من سے زائد سونا موصول ہوا جو ایک کروڑ درہم میں فروخت ہوا حالانکہ دوران حملہ وہ جل بھی گیا تھا۔۔۔۔ اس کے علاوہ ایرانی بادشاہوں کی تلواریں، خنجر، زرہیں اور محتلف قسم کے ملبوسات کے علاوہ ایک قیمتی فرش (60x60 گز سائز کا) جس پر پوری سلطنت کے شہروں , قلعوں , نہروں , اگنے والی فصلوں اور درختوں کی مکمل منظر کشی کی گئی تھی اور یہ خالص سونے اور قیمتی جواہرات سے بنا ہوا تھا اور اس کو وہ "بہار کسریٰ" کے نام سے پکارتے تھے۔۔۔۔ مال غنیمت میں کسریٰ کا ایک قیمتی تاج بھی شامل تھا۔ سونے کا بنا ہوا یہ تاج اتنا وزنی تھا کہ کسریٰ اس کو سر پر نہیں رکھ سکتا تھا بلکہ اس کو سونے کی زنجیروں سے لٹکایا گیا تھا, جب شہنشاہ اپنی کرسی پر بیٹھتا تو اپنا سر تاج کے نیچے ٹکا کر تیار ہو جاتا تو پردہ سرکا دیا جاتا اور تمام درباری تعظیم بجا لاتے ہوے سجدہ میں گر پڑتے۔۔۔۔۔ """اللہ اللہ ایسے خود سر اور متکبر لوگوں کا غرور مجاہدین اسلام نے خاک میں ملا دیا۔""



نوادرات جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ پہنچے تو آپ انہیں دیکھ کر لشکر اسلام کی دیانت و امانت پر بہت مسرور ہوئے اور کسریٰ کے کنگن نکال کر حضرت سراقہ بن مالک کو پہنا دئیے... اور یوں رسول اللہ کی پیشگوئی پوری ہوئی جو آپ نے کئی سال پہلے کی تھی کہ۔۔۔ ’’سراقہ میں تجھے کسریٰ کے کنگن پہنے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔‘‘

11,709 views0 comments
bottom of page