top of page

وقت اور ہم!




تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

وقت اس کائنات کا سب سے بڑا معمہ ہے۔ وقت دراصل کیا ہے۔؟ دو واقعات کے بیچ جو ہے وہ وقت ہے۔ سورج ابھی سوا نیزے پر تھا اب غروب ہونے کو ہے۔ ان دو واقعات میں جو گزرا ہے وہ وقت ہے۔ آپ ابھی جواں ہیں، کچھ عرصے میں بوڑھے ہو جائیں گے۔ آپکی جوانی اور بڑھاپے کے بیچ جو ہے وہ دراصل وقت ہے۔ کائنات ابھی بگ بینگ سے وجود میں آئیں اور اب یہاں کئی کہکشائیں ، ستارے، سیارے، زمین اور زندگی ہے، ان سب واقعات کے بیچ جو گزرا وہ وقت ہے۔


سائنس کے مطابق وقت بگ بینگ سے شروع ہوا۔ اُس سے پہلے وقت نہیں تھا کیونکہ کائنات بھی نہیں تھی۔

آئن سٹائن کے مطابق وقت کائنات کی چوتھی ڈائمنشن ہے۔ باقی تین ڈائمنشنز مکاں کی ہیں۔ اگر آپ نے کسی کو ملنا کو تو جگہ اور وقت بتاتے ہیں۔ ان میں کوئی ایک بھی مسنگ ہو تو آپ اّس شخص سے نہیں مل پائیں گے۔



وقت کی رفتار چیزوں پر انکی حرکت کرنے سے بدلتی ہے۔ تیزی سے حرکت کرتی شے پر وقت کسی باہر سے دیکھتے شخص کو آہستہ گزرتا محسوس ہو گا۔ ایسے ہی گریویٹی بھی وقت کی رفتار بدلتی ہے۔ زیادہ ماس والی اشیا کی گریویٹی زیادہ ہوتی ہے۔ زمین پر وقت مختلف رفتار سے گزرے گا، چاند پر مختلف، مشتری پر مختلف اور سورج پر مختلف۔




جو شے جس قدر زیادہ ماس رکھے گی اُسکے گرد وقت اُتنا سست روی سے گزرے گا۔ بلیک ہول کے قریب وقت اس قدر سست روی سے گزرے گا کہ شاید باہر سے اگر کوئی دیکھے تو اُسے آپ پر وقت کے گزرنے کا احساس بھی نہ ہو۔

وقت کو ماپنے کے لئے پرانے وقتوں سے انسان نے کئی طریقے ایجاد کیے۔ سورج کی حرکت، چاند کا گھٹنا بڑھنا، ستاروں کا آسمان میں جگہ بدلنا وغیرہ وغیرہ۔ پھر انسانوں نے وقت کے لیے گھڑیاں بنائیں۔ سادہ ریت کی گھڑیاں، پانی سے چلتی گھڑیاں۔ پھر نیا دور آیا آج انسان وقت کو ایٹامک کلاک سے ماپتے ہیں۔ ایٹموں کی ایک حالت سے دوسری حالت میں جانے کے واقعہ کو استعمال کر کے بہتر سے بہتر وقت کی پیمائش کرتے ہیں۔




چونکہ ہم جانتے ہیں کہ وقت کی رفتار گریوٹی سے تبدیل ہوتی ہے لہذاٰ زمین کی سطح سے جتنی دور جائیں فرض کریں ماؤنٹ ایورسٹ پر تو وہاں وقت مختلف رفتار سے گزرے گا(تیز گزرے گا مگر یہ بہت معمولی تیزی ہو گی جو آپ محسوس بھی نہیں کر سکیں گے) بنسبت زمین کی سطح پر۔ کیونکہ زمین سے اونچائی پر گریویٹی کا اثر کم ہوتا جاتا ہے۔


کچھ عرصہ قبل سائنسدانوں نے محض ایک ملی میٹر جی محض ایک ملی میٹر کی اونچائی کے فرق سے وقت کو مختلف رفتار سے ماپا ہے۔ یہ کارنامہ ایک انتہائی حساس ایٹامک کلاک سے کیا گیا جو امریکی سائنسدانوں نے کر دکھایا۔

وقت اور گریویٹی کے اس تعلق سے ہم کائنات کے کئی راز جان سکتے ہیں مثال کے طور پر گریوٹیشنل ویوز کے بارے میں جو دو بلیک ہولز یا دو ستاروں کے ضم ہونے سے پیدا ہوتی ہوں یا کسی اور مظاہر قدرت سے۔


مگر رکئے ایٹامک کلاک اور وقت کے اس ماپنے سے ہم جی پی ایس سسٹم کو بھی بہتر سے بہتر بنا سکتے ہیں کیونکہ خلا میں زمین کے گرد گھومتے یہ جی پی ایس سٹلائٹ، ان پر بھی تو وقت زمین کی سطح سے زیادہ تیزی سے گزرے گا کہ یہ زمین کی گریویٹی کے اثر میں تو ہیں مگر وہاں یہ اثر کمزور ہے۔ لہذا جب جی پی ایس سٹلائٹ آپکے موبائل فون پر اپنا مقامی وقت بھیجتا ہے تو اس میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اس وقت میں کچھ کمی کی جائے کہ سٹلائٹ پر وقت تیزی سے گزر رہا یے بنسبت آپکے وقت کے۔

چونکہ ہم جانتے ہیں کہ وقت کی رفتار گریوٹی سے تبدیل ہوتی ہے لہذاٰ زمین کی سطح سے جتنی دور جائیں فرض کریں ماؤنٹ ایورسٹ پر تو وہاں وقت مختلف رفتار سے گزرے گا(تیز گزرے گا مگر یہ بہت معمولی تیزی ہو گی جو آپ محسوس بھی نہیں کر سکیں گے) بنسبت زمین کی سطح پر۔ کیونکہ زمین سے اونچائی پر گریویٹی کا اثر کم ہوتا جاتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل سائنسدانوں نے محض ایک ملی میٹر جی محض ایک ملی میٹر کی اونچائی کے فرق سے وقت کو مختلف رفتار سے ماپا ہے۔ یہ کارنامہ ایک انتہائی حساس ایٹامک کلاک سے کیا گیا جو امریکی سائنسدانوں نے کر دکھایا۔

وقت اور گریویٹی کے اس تعلق سے ہم کائنات کے کئی راز جان سکتے ہیں مثال کے طور پر گریوٹیشنل ویوز کے بارے میں جو دو بلیک ہولز یا دو ستاروں کے ضم ہونے سے پیدا ہوتی ہوں یا کسی اور مظاہر قدرت سے۔

مگر رکئے ایٹامک کلاک اور وقت کے اس ماپنے سے ہم جی پی ایس سسٹم کو بھی بہتر سے بہتر بنا سکتے ہیں کیونکہ خلا میں زمین کے گرد گھومتے یہ جی پی ایس سٹلائٹ، ان پر بھی تو وقت زمین کی سطح سے زیادہ تیزی سے گزرے گا کہ یہ زمین کی گریویٹی کے اثر میں تو ہیں مگر وہاں یہ اثر کمزور ہے۔ لہذا جب جی پی ایس سٹلائٹ آپکے موبائل فون پر اپنا مقامی وقت بھیجتا ہے تو اس میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اس وقت میں کچھ کمی کی جائے کہ سٹلائٹ پر وقت تیزی سے گزر رہا یے بنسبت آپکے وقت کے۔

اس طرح آپکا موبائل سٹلائٹ سے آپکا فاصلہ معلوم کرتا ہے اور اگر ایک وقت میں تین یا زائد سٹلائٹ ایسے سگنل آپکو بھیجیں تو جیومیٹری کے سادہ اُصولوں سے آپکا موبائل زمین پر آپکی لوکیشن بتا دیتا ہے۔ آئن سٹائن کو دعائیں دیجیئے کہ اُسکی تھیوری کام کر رہی ہے راستہ بتانے میں۔ وقت ایک سمت کیوں جاتا ہے یعنی ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کیوں؟ یہ بھی ایک معمہ ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات میں ہر شے ایک خاص ترتیب سے بے ترتیبی کی طرف جاتی یے۔ شروع میں کائنات کثیف تھی اب بگ بینگ سے بکھر کر کہکشائیں اور ستارے بن رہے ہیں۔ کائنات پھیل رہی ہے، بے ترتیب ہو رہی ہے۔ اس ترتیب سے بے ترتیبی کو سائنس کی دنیا میں Entropy کہتے ہیں۔ کائنات کی Entropy بڑھ رہی ہے۔ وقت بھی Entropy کو فالو کرتا ایک سمت جا رہا ہے۔ ایک پانی کے گلاس میں رنگ مکس کریں اسے دوبارہ چمچ کو الٹے دائرے میں گھما کر رنگ الگ الگ نہیں کر سکیں گے۔ یہ ترتیب سے بے ترتیبی ہے۔ رنگ بکھر گئے۔ یہی سسٹم کی Entropy ہے۔ یہی وقت کے بہاؤ کی سمت ہے۔ وقت کو واپس نہیں لا سکتے۔

کیا ہم وقت کو مکمل طور پر سمجھ پائیں گے؟ کیا ہم وقت پر قابو پا سکیں گے؟ اسکا جواب بھی وقت ہی دے گا۔ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ فی الحال ہم جو جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ وقت اس کائنات کی ایک پراسرار خاصیت ہے۔ #ڈاکٹر_حفیظ_الحسن



11 views0 comments

Comments

Rated 0 out of 5 stars.
No ratings yet

Add a rating
bottom of page