کیا موت تکلیف دہ ہوتی ہے؟
سائنسی تحقیق کے مطابق موت کا مرحلہ کوئی تکلیف دہ، وحشت ناک یا دردناک ہرگز نہیں ہوتا بلکہ انتہائی پرسکون ہوتا ہے اور مرتے ہوئے تمام انسانوں کے ساتھ بلا تفریق یہ معاملہ ہوتا ہے۔
موت سے پہلے کچھ انسانوں کو تکلیف کا اظہار کرتے یا چیختے چلاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے مگر یہ ان کی موت کے مراحل نہیں ہوتے بلکہ انہیں لاحق کسی جسمانی عارضے اور تکلیف کے سبب ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی عارضہ اور شدید تکلیف ہی آگے جاکر کسی انسان کے موت کا مرکزی سبب بنے۔
مختلف عارضوں اور پیچیدگیوں کے سبب جب انسانی جسم کے اہم اور نازک عضلات ناکارہ ہوجاتے ہیں تو پھر ان ناقابل تلافی نقصانات کو بھانپتے ہوئے انسانی جسم خودبخود ایک ”شٹ ڈاؤن“ پروسیس شروع کردیتا ہے اور ٹھیک یہیں سے موت کا مرحلہ یا سکرات کا عمل شروع ہوتا ہے۔ انسانی دماغ کافی مقدار میں مختلف قسم کے نیوروٹرانسمیٹرز بالخصوص (Dimethyltryptaminine) نامی کیمیکل اپنے اندر چھوڑ دیتی ہے جس سے مرتا ہوا انسان خود کو بہت ہلکا اور ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ سکون کی ایک بھر پور لہر اس کے پورے وجود میں دوڑنے لگ جاتی ہے۔ تمام تکالیف کا احساس زائل ہوجاتا ہے اور انسان ٹرانس میں چلا جاتا ہے۔ اسے اپنی یادداشت میں محفوظ مناظر نظر آنے شروع ہوجاتے ہیں۔
بسا اوقات کچھ خوش قسمت انسان اس مرحلے سے بچ نکل کر واپس زندگی کی طرف لوٹ جاتے ہیں مگر اکثریت کے نصیب میں آگے موت ہی ہوتی ہے۔ یہ معاملہ مرتے ہوئے تمام انسانوں کے ساتھ پیش آتا ہے۔ اس میں کسی مرد عورت، بچے بوڑھے، ولی، بزرگ، ریپسٹ اور سیریل کلر کی تمیز نہیں۔ یہ نیچر کا معاملہ ہے لہذا سب انسانوں کے ساتھ کم و بیش یکساں سلوک ہوتا ہے۔
کچھ انسانی دماغ اپنی پیچیدگیوں کے سبب عام دماغوں کی بنسبت کہیں زیادہ بھاری مقدار میں نیوروٹرانسمیٹرز چھوڑ دیتے ہیں جس سے مرتا ہوا انسان باقاعدہ مسکراتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ آئے روز ہمیں ایسے بے شمار واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ فلاں بندہ سکرات کے وقت مسکرا رہا تھا۔ یہ مسکراہٹ دراصل انہی نیوروٹرانسمیٹرز کی فراوانی کی دین ہوتا ہے۔
انہی نیوروٹرانسمیٹرز میں شامل DMT ایک انتہائی مسکن ڈرگ ہے اور اسے مصنوعی طریقے سے بھی کشید کیا جاسکتا ہے۔ ہر سال دنیا بھر میں کئی نشئی اور ایڈونچر پسند اس ڈرگ کے کثرت استعمال کرنے سے بظاہر لاپرواہی میں مگر پرسکون موت مرجاتے ہیں۔
Comments