top of page

حضرت عبدالخالق گوجدوانیؒ اور سلطان عثمان غازی کی وصیتیں

  حضرت خواجہ عبدالخالق گوجدوانی قدس سرہ 12ویں صدی عیسوی کے ناموراولیائے اکرام میں سے ایک تھے۔آپؒ حضرت امام مالکؒ کی نسل سے تھے۔آپؒ کے والد حضرت عبدالجمیلؒ بھی ایک ولی اللہ اور عارف تھے۔آپؒ کا پایہ و مرتبہ بہت بلند تھا۔کہا جاتا ہے کہ آپؒ کی حضرت خضر علیہ السلام سے دوستی تھی اور اکثر ان سے گفتگو اور بات چیت کیا کرتے تھے۔آپؒ کے والد حضرت عبدالجمیلؒ بارہویں صدی کے اوائل میں ترکی کے شہر مالاتیا سے ہجرت کرکے بخارہ (ازبکستان) کے قریبی علاقے گوجدوان آ بسے۔یہیں آپؒ کے ہاں حضرت عبدالخالق کی پیدائش ہوئی اور اسی علاقے کی نسبت سے آپؒ کو گوجدوانی کہا جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ آپؒ کا نام عبدالخالق بھی حضرت خضر علیہ السلام نے آپؒ کے والد کو تجویز کیا تھا۔ حضرت عبدالخالق گوجدوانیؒ بھی اپنے والد گرمی کی طرح روحانی اور معنوی درجوں کیبلندی پر تھے۔آپؒ کا انتقال 1180ئمیں ہوا۔آپؒ کے چار خلفاءتھے، جن میں اولیائے کبیرؒ کو وہ اپنا معنوی اور روحانی بیٹا سمجھتے تھے۔آپؒ کی حضرت اولیائے کبیرؒکو کی گئی وصیتیں بہت مشہور ہیں۔حکمت اور معرفت سے بھرپور یہ وصیتیں آج بھی قابل مطالعہ اور قابل تقلید ہیں۔ان وصیتوں میں سے یہ اقتباس قارئین کی دلچسپی کے لئے حاضر ہے۔


”اے میرے بیٹے! مَیں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ تمام احوال میں علم، ادب اور تقویٰ کا دامن تھامے رکھنا۔سلفِ صالحین کی کتب اورکارنامے پڑھ اور ان کے راستے پر چل، فقہہ اور حدیث سیکھیں اور جاہل صوفیوں سے جتنا ہو سکے، دور بھاگ، شہرت کے حصول کے لئے مت دوڑ بھاگ کر،کیونکہ شہرت کے اندر آفت اور مصیبت چھپی ہوئی ہے اور یہ بڑی خطرناک ہوتی ہے۔مقام و منصب کے لئے مت تگ و دو کر،یہاں تک کہ یہ مفتی کا منصب ہو یا اور کوئی بڑا اعلیٰ اور مقام دل میں اس کے لئے حرص مت پیدا کر، معاشرے میں عام لوگوں کی طرح زندگی بسر کر،حتیٰ المقدور باجماعت نماز ادا کر،اگر دل میں شہرت کی طرف میلان ہے تو امام اور موذن مت بن۔حکومت یا عدلیہ سے جاری ہونے والے اعلامیوں میں اپنا نام مت لکھوا،کسی کے خلاف دعویٰ مت دائر کر،لڑائی جھگڑے سے بچ، کسی کی بغیر جانے ضمانت مت دے، عام لوگوں کی وصیتوں میں اپنے آپ کو مت الجھائیں۔


دنیا داروں سے دوستی مت رکھ،بادشاہ اور سرکاری حکام سے اٹھنا بیٹھنا مت رکھ،نوعمر لڑکوں اور نامحرم عورتوں کے ساتھ مت بیٹھ، نہ جانے والے موضوع یا شعبے کے بارے میں مت بحث کر،خوش الحان اور خوبصورت آواز اور مسحور کن نغموں سے زیادہ دل مت بہلا، کیونکہ ان میں سے اکثر دل اورروح کو پراگندہ کردیں گی، تاہم روح اور دل کو اذان اور قرآن کی آواز سے شاد کر، کم کھاﺅ، کم بولو، کم سوﺅ،غفلت برتنے سے ایسے بھاگ جیسے انسان شیر کے ڈر سے بھاگتا ہے۔حلال رزق کے لئے انتہائی تگ و دو کر اور شک و شبہ والی چیزیں ترک کردے۔اس وقت تک شادی نہ کر،جب تک کہ نفس پر قابو نہ پالے، تاکہ دین کی جگہ کوئی اور چیز دل میں پناہ نہ کرلے۔زیادہ مت ہنس خاص کر قہقہہ لگا کر مت ہنس کہ یہ دل کو مردہ کردیتا ہے،تاہم تبسم کو مت بھول ،ہر ایک کو شفقت کی نظر سے دیکھ اور کسی کو بھی حقیر یا کم تر مت سمجھ۔


اپنے ظاہر کو زرق و برق سے اتنامت سجاکہ ظاہر خوبصورتی اور بناوٹ باطنی خرابیوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔کسی سے بھی تنازع و کشمکش مت رکھ، کسی سے کوئی چیز مت طلب کراور کسی کو اپنی خدمت کی پیشکش مت کر۔قناعت، اطمینانیت اور استغفار مانگ، اپنے وقار کی حفاظت کر، اپنے پیش روﺅں اور تربیت کرنے والوں (والدین ، استاد، مرشد) سے وفادار رہ۔اپنے مال اور جان سے ان کی خدمت کر، ان سے غفلت برتنے والے یقیناً فلاح نہیں پا سکیں گے۔ان کے احکام کو در مت کر اور اس سے انکاری مت ہو، دنیا اور اہل دنیا سے رغبت اور میل جول مت رکھ، ہمیشہ اپنے دل کو رقیق اور حزن والا رکھ، بدن اور جسم کو ہر وقت عبادت کے لئے تیار اور آنکھ کو اشکبار رکھ، اپنے اعمال کو خالص رکھ، دعا کو التجاﺅں سے سجا،لباس کو سادہ اور متوازی رکھ، حق پر چلنے والوں کو دوست رکھ، ظاہری اور باطنی علوم کے حصول کو اپنا سرمایہ بنا۔مسجد کو گھر بنا اور اللہ کے ولیوں کو دوست رکھ اور ان کے قریب ہو۔اپنے آپ کو عاجز و انکسار بنا،جس کام کی طاقت نہیں ہے، اس کی ذمہ داری مت لے، جو کام تم سے متعلق نہ ہو، اس میں مت ٹانگ اڑا، فتنے کے دور میں تنہائی اختیار کر،کسی بھی منفعت کے لئے فتویٰ مت جاری کر، مغرور دولت مندوں اور امیروں سے دور رہ، جاہلوں سے بھی دوری اختیار کر“۔


سلطنت عثمانیہ کا بانی عثمان غازی 1258-1326)) ارطول طغرل بیگ کا بیٹا تھا۔عثمان غازی انتہائی نڈر، خدا خوف اور اہل حکمت و دانش سے بہت عقیدت رکھتا تھا۔بُرصہ اور اردگرد دوسرے علاقوں کی بہت سی اراضی اور زمین اس نے درویشوں کے نام کردی تھی۔عثمان غازی نے اولیاءاللہ سے محبت ہی کی خاطر اپنی شادی اس وقت کے مشہور درویش شیخ ادابالی کی بیٹی سے کی ۔سلطنتِ عثمانیہ کی باگ ڈور اس کے بیٹے سلطان اور حان غازی (1288-1326ئ) نے سنبھالی۔وفات سے قبل عثمان غازی نے اپنے بیٹے اور حان غازی کے نام جو وصیت لکھی ، وہ قارئین کی دلچسپی کے لئے درج ذیل ہے:


”اللہ کے احکام کے منافی کوئی کام مت کرنا،جس چیز کا پتہ نہ ہو، علماءسے جان، ظالم مت بننا، سلطنت میں انصاف قائم کر، اللہ کے راستے میں جہاد ترک مت کرکہ میری روح کو خوش رکھنا،جہاں کہیں تمہیں اہل علم کا سراغ ملے ، ان سے تعلق جوڑ، ہمارا مسلک راہ خدا اورہمارا مقصد دین خدا کی اشاعت و تبلیغ ہے،ورنہ ہمارا پیشہ اور مقصد کوئی بادشاہی، جہاں گیری اور ملک و سلطنت اور دولت کا حصول نہیں ہے، اپنے کارندوں پر سختی مت کر، بھیڑیا بننے کی بجائے شیر بن، سخت محنت کو اپنا شعار بنا، کیونکہ تو عثمان ، ارطول طغرل کا بیٹا ہے اور اوغز اور قارا حان کی نسل سے ہے۔خدا کا عاجز و مفکر بندہ بن۔اگر تم اعلیٰ مراتب حاصل کرنا چاہتے ہو تو استنبول کو فتح کرکے دکھا اور اسے گلابوں کا باغ بنا دے“۔


اوپر بیان کی گئی وصیتیں آج بھی ہمارے لئے قابل تقلید ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود اپنے بچوں اور آنے والی نسلوں کے لئے کیا ورثہ اور میراث چھوڑتے ہیں ،کیونکہ بچے اپنے والدین ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہی کے افکار و اعمال کی کاپی ہوتے ہیں۔اللہ ہماری آنے والی نسل کو نیک بنائے۔

1,249 views2 comments
bottom of page