top of page

قدامت پسند! مسلمان ہی کیوں؟

Updated: Mar 22, 2021

تحریر: ناہید اختر


آیا صوفیہ یوں تو عالمی شہرت یافتہ تاریخی اہمیت کی حامل عمارت ہونے کے باعث دنیا بھر میں جانی پہچانی جاتی ہے لیکن 24 جولائی کو ترک حکومت کے اس کو مسجد کا درجہ دیے جانے کے بعد ایک لمبی بحث چھڑ گئی ہے۔ اس کی تاریخی اہمیت پر کچھ روشنی ڈالنے کے بعد زیربحث موضوعات پر بات کی جائے گی۔



عمارت سن 537 میں بازنطینی شہنشاہ جسنین اول کے دور میں ایک چرچ کے طور پر تعمیر کی گئی تھی اور تقریبا ایک ہزار سال تک یہ دنیا کا سب سے بڑا گرجاگھر تھا۔ سلطنت عثمانیہ نے جب ۱۴۵۳ میں اس شہر کو فتح کیا تو ایاصوفیہ پرغاصبانہ قبضہ نہیں کیا جیسا کہ فاتح افواج عام طور پر کرتی ہیں۔ عمارت کو باہمی رضامندی سے باقاعدہ خریدا گیا اور پھر اس کو مسجد کا درجہ دیا گیا مزید یہ کہ تمام عمارت میں سے عیسائیت کے نقوش کو نیست ونابود کیا گیا نہ ہی کوئی ذن پہنچایا گیا بلکہ ان کو پوشیدہ کر دیا گیا اور میناروں کی تعمیر کرکے اس کو مسجد کی شکل دے دی گئی



تاہم مصطفی کمال اتاترک نے عمارت کو ۱۹۳۵ میں عجائب گھر بنانے کا حکم دیا اور اسے عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا۔ یہ ترکی کے اہم ترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے ۔ ۲۴ جولائی کو اس کو مسجد کا درجہ دیا جانے پر دنیا بھر میں تشویش کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس بحث میں حصة لینے سے پہلے ترک صدر طیب اردوان کے ایاصوفیہ میں خطاب کے کچھ الفاظ کا جائزہ لیا جانا چاہیے ان کا کہنا تھا کہ “آیا صوفیہ کی دروازے سب کے لیے کھلے رہیں گے” مزید یہ کہ ترکی میں مذہبی امور کی نگران مقتدرہ نے کہا ہیں کہ یونیسکو کی فہرست میں شامل اس عمارت میں موجود کوئی بھی مسیحی ، مذہبی علامت نگاری کی پینٹنگ وہاں سے نہیں ہٹائی جائے گی




جہاں تک اعتراضات کا تعلق ہے تو پہلا اعتراض مسیحی برادری کو دکھ پہنچانے کا ہے دکھ پہنچنے کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب کسی مسیحی علامت کو عمارت میں سے نہ پہلے ہٹایا گیا نہ اب تو صرف اس بات سے دکھ ہے کہ وہاں مسلمان عبادت کر لیں گے جبکہ عمارت جوں کی توں مسیحی برادری کے لئے بھی کھلی ہے ہے قدامت پسندی کا الزام جن پر لگایا جاتا ہے ان کو تو مسیحی بھائیوں کے عمارت میں آنے اور باقی سب چیزوں سے کوئی اعتراض نہیں تو قدامت پسند دراصل کون ہے؟



دوسرا اعتراض عمارت کے ورلڈ ہیریٹیج ہونے کی باعث ہے۔ کیا مسجد کا درجہ دینے کے بعد عمارت کی تاریخی حیثیت کم ہوگئی ہے یا ختم ہوگئی ہے؟ ہمارے پہلے بھی تو سینکڑوں برس مسجد رہی ہے اور اس کے دروازے آج بھی تمام سیاحوں کے لئے کھلے ہیں ، تمام مذاہب کے لئے کھلے ہیں۔ اعتراض صرف مسلمانوں کی نماز اور اذان پر ہے ؟؟ تو قدامت پسند کون ہے؟




مسلمان یا نقاد؟؟

کہیں یہ بھی پڑھا گیا کہ آج ترکی کے سیکولرز رو رہے ہوں گے تو ایسی سیکولر مثال اور کہاں ملے گی؟ بلکہ دنیا جسے سیکولرزم کہتی ہے ہم مسلمان اسے “مذہبی رواداری” کہتے ہیں ہم تمام مذاہب کی تکریم کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہماری اذان اور نماز کو بھی تکریم دی جائے ان کے ادا ہونے پر مذمت اور افسوس کے بیانات نہ جاری کیے جائیں بقول ڈاکٹر مشتاق عقل یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ سوئٹزرلینڈ جیسے ملک میں جو دو سو سال سے غیر جانبداری کا دعویٰ کرتا ہے ، باقاعدہ ریفرینڈم سے فیصلہ کرتا ہے کہ کسی مسجد کا گنبد نہیں بنایا جائے گا خواہ گرجا گھروں پر صلیب موجود رہے۔ یہ قدامت پسند ہی ہیں جو دوسرے مذاہب کی نشانیاں سنبھال کر رکھتے ہیں.



4,650 views1 comment
bottom of page