top of page

کیا گاڑی چلانے سے پہلے اسے گرم کرنا ضروری ہے؟

سردیوں کے موسم میں دیکھا گیا ہے کہ صبح کے وقت اکثر لوگ گاڑی چلانے سے پہلے کئی منٹ تک گاڑی کا انجن آن رکھتے ہیں، تاکہ گاڑی گرم ہو جائے اور اس کے بعد اسے چلاتے ہیں۔


لیکن ماہرین کے مطابق ایسا کرنا نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ اس سے آپ کی گاڑی کے انجن کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ عمل ماحول کے لیے بھی بےحد مضر ہے۔

سردی میں گاڑی کا انجن آن رکھنا (جسے انگریزی میں آئیڈلنگ ’idling‘ کہتے ہیں) صرف ہمارے ہاں ہی عام نہیں ہے۔ امریکہ میں کی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ امریکی ڈرائیور اوسطاً پانچ منٹ تک گاڑی کا انجن سٹارٹ رکھنے کے بعد گاڑی چلاتے ہیں بلکہ اب نئی گاڑیوں میں ایسے ریموٹ آ گئے ہیں جن سے گاڑی دور ہی سے سٹارٹ ہو سکتی ہے تو بہت سے لوگ گھر کے اندر سے ہی گاڑی سٹارٹ کر دیتے ہیں اور کچھ دیر کے بعد جا کر اسے چلانا شروع کرتے ہیں۔


تو آخر یہ تصور آیا کہاں سے کہ ٹھنڈی گاڑی کو آئیڈلنگ کے ذریعے گرم رکھنا ضروری ہے؟ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کے مطابق پرانی گاڑیوں میں کاربوریٹر کو گرم ہونے میں وقت لگتا تھا، اس لیے ڈرائیور گاڑی کو سڑک پر چلانے سے پہلے گرم رکھنا ضروری سمجھتے تھے۔


اب اس کی ضرورت کیوں نہیں؟




1980 کے بعد سے الیکٹرانک فیوئل انجیکشن والی گاڑیاں آ گئی ہیں جن میں آئیڈلنگ کی ضرورت نہیں رہی۔ ان گاڑیوں میں سینسر لگے ہوتے ہیں جو انجن کو ہوا اور ایندھن کا مناسب آمیزہ بنا کر دیتی ہیں۔ یہ سینسر گاڑی کو فوراً گرم کر دیتے ہیں۔


گاڑیوں سے متعلق ویب سائٹ ’پاک وہیلز‘ پر شائع ہونے والی ایک تحریر کے مطابق: ’موجودہ دور کی گاڑیوں میں استعمال ہونے والے انجن کو ایندھن کی فراہمی کا طریقہ کار قدرے مختلف ہوتا ہے۔ اس میں تھروٹل موجود ہے جو صرف ہوا کو کھینچتا ہے اور ایندھن کو اس سے بالکل الگ رکھتا ہے۔




’ان گاڑیوں میں انجیکٹرز (injectors) لگائے جاتے ہیں جو گاڑی چلائے جانے سے پہلے ہی سلینڈر کو براہ راست ایندھن فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سینسرز بھی شامل ہیں جو ہوا اور ایندھن کے تناسب کو کنٹرول رکھتے ہیں۔ گاڑی کا انجن کنٹرول یونٹ (ECU) سلینڈر کو فراہم ہونے والے ایندھن کی مقدار کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ایگزاسٹ سے نکلنے والی گیس کی بھی جانچ کرتا رہتا ہے۔ اس سے نہ صرف ایندھن بلکہ وقت کی بھی بچت ہوتی ہے، لہٰذا آپ کو سفر سے پہلے گاڑی سٹارٹ کر کے چھوڑ دینے کی ضروری نہیں۔‘


مختلف عارضوں اور پیچیدگیوں کے سبب جب انسانی جسم کے اہم اور نازک عضلات ناکارہ ہوجاتے ہیں تو پھر ان ناقابل تلافی نقصانات کو بھانپتے ہوئے انسانی جسم خودبخود ایک ”شٹ ڈاؤن“ پروسیس شروع کردیتا ہے اور ٹھیک یہیں سے موت کا مرحلہ یا سکرات کا عمل شروع ہوتا ہے۔ انسانی دماغ کافی مقدار میں مختلف قسم کے نیوروٹرانسمیٹرز بالخصوص (Dimethyltryptaminine) نامی کیمیکل اپنے اندر چھوڑ دیتی ہے جس سے مرتا ہوا انسان خود کو بہت ہلکا اور ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ سکون کی ایک بھر پور لہر اس کے پورے وجود میں دوڑنے لگ جاتی ہے۔ تمام تکالیف کا احساس زائل ہوجاتا ہے اور انسان ٹرانس میں چلا جاتا ہے۔ اسے اپنی یادداشت میں محفوظ مناظر نظر آنے شروع ہوجاتے ہیں۔




63 views0 comments
bottom of page